Islamic teachings in epidemic diseases.
وبائی امراض میں اسلامی تعلیمات۔
تمام مسلمانوں کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
کے حکم کے بغیر کوئی بھی بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگتی۔ مگر ایسی
وبائی بیماریوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی شریعت کے مزاج کے
عین مطابق ہے۔
امراض کا متعدّی ہونا جدید
سائنسی دور میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ جس کے بعد کسی یہ موقف اس بات کے خلاف ہےکہ بیماریاں متعدّی نہیں ہوتیں اوریہ
خیال احادیث نبویہؐ کا درست مفہوم نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کیونکہ ہمارے خاتم النبیّین
ﷺ خلاف حقیقت بات نہیں فرماتے۔ ایک حدیث ہے جس میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ خاتم
النبیّین رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ۔
لاَ
عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ
كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ.
"یعنی ہربیماری اپنی ذات میں متعدّی
نہیں ہوتی (جب تک مسبب الاسباب خدا کا اذن نہ ہو) اور جاہلیت کے دیگر اوہام باطلہ
بدشگونی، ہے (مقتول کی روح کا
پرندہ کے روپ میں انتقام نہ لینے تک دہائی دینا) اور صفر (پیٹ میں سانپ کی موجودگی
سے بھوک کی بیماری) کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جذام کے بیمار سے تم
ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔"
اس حدیث پاک میں ایک طرف خاتم النبیّین ﷺ نےعربوں کے جاہلیت کے
خیالات کا ردّ فرمایا ہے جوہربیمار سے دوسرے کو بیماری لگ جانے کے وہم میں مبتلا
تھے اور ان کو اس مشرکانہ خیال سے بچاکر سچی توحید کا درس دیا تو دوسری طرف متعدّی
بیماریوں سے سختی سے بچنے کی بھی تلقیں فرمائی جس کی نافرمانی گناہ کے زمرے میں
آتی ہے۔
اس حدیث کی وضاحت میں یہ سیاق و سباق بھی توجہ طلب ہے کہ جب خاتم النبیّن رسول کریم ﷺ نے
جاہلیت کے اس خیال کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر بیماری متعدّی نہیں ہوتی تو
ایک صحابی نے یہ دلیل دی کہ ایک اونٹ سے دوسرے کوخارش کی بیماری لگنا ہمارا مشاہدہ
ہےتویہ کیسےہوجاتا ہے؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ورنہ پہلے اونٹ کو کس نے بیماری
لگائی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مرض کے مْتعدی ہونے کی نفی
نہیں فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف مْتوجہ فرمایا اور بتایا کہ عالَم
اسباب مْسبِّبْ الاسباب کے حکم کے تابع ہے، لہٰذا تدبیر کے طور پر اسباب کو اختیار
کیا جائے، لیکن سب چیزوں کو قادرِ مْطلق کے حکم کے تابع سمجھا جائے۔
سب اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔
گویا بیماری متعدّی ہوسکتی ہے مگر ہر کوئی اس متعدیت وجہ سے بیمار
نہیں ہوتایعنی اصل میں اللہ کے حکم سے سب ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ (النساء 79)
یعنی سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتاہے۔
مگر ایک کمزور انسان بیماری کے لیےاپنے اندر موافقت پانے
یادیگرایسے اسباب عدم احتیاط وعلاج وغیرہ کے باعث مصیبت میں پڑجاتا ہے۔ یہی مطلب
اس آیت کا ہے کہ
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء 81)
یعنی جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شافی مطلق مجھے شفا عطا فرماتا
ہے۔
اسی لیے رسول کریم ﷺ نے جذام میں مبتلا مریض سے دور رہنے کی ہدایت
فرماکر احتیاطی تدابیر اور اسباب اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
حدیث۔
حدیثِ پاک
میں ہے: ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا: کوئی مرض (اپنی ذات سے) مُتعدّی نہیں ہوتا‘‘(بخاری)
۔مریض سے تندرست آدمی میں مرض کے منتقل ہونے کو ’’عُدوٰی‘‘ کہتے ہیں، بعض لوگوں
نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ کوئی بھی مرض متعدی نہیں ہے اور وہ مہلک امراض سے بچاؤ
کے لیے حفاظتی تدابیر کو توّکل کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ فہم درست نہیں ہے۔
رسول اللہ ؐ نے مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی تدابیر اختیار
کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔
سیدنا
اْسامہ بن زید روایت کرتے ہیں: رسول کریمﷺ نے فرمایا: ’’طاعون ایک صورتِ عذاب ہے،
جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی اْمّتوں یا بنی اسرائیل پر مْسلط فرمایا، سو جب کسی
جگہ یہ بیماری پھیل جائے، تو وہاں کے لوگ اْس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اْس
بستی سے باہر ہیں، وہ اْس میں داخل نہ ہوں‘‘۔
سیدنا عمرؓ
شام کے سفر پر جارہے تھے، سَرغ نامی بستی سے اْن کا گزر ہوا، سیدنا ابوعبیدہ بن
جراحؓ اور اْن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ نے مہاجرین وانصار صحابہ کرام اور غزوۂ فتحِ مکہ میں شریک
اکابرِ قریش سے مشورہ کیا، پھر اجتماعی مشاورت سے اْنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے
کا فیصلہ کیا۔ پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور اْنہوں نے کہا: اِس حوالے سے
میرے پاس رسول اللہؐ کی ہدایت موجود ہے، آپﷺ نے فرمایا:
’’جب تم
کسی بستی میں اِس وبا کے بارے میں سنو، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں
موجود ہو اور یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ‘‘۔ یہ سن کر سیدنا عمر
بن خطابؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو متعدی وبا سے بچنے کے
لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔
حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکل اور تقدیر پر
ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ توکّل کی حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے
حدیث میں یہ فرمان کہ ’’کوئی مرض مُتعدی نہیں ہوتا‘‘، اِس کی
شرح میں علامہ نووی لکھتے ہیں:
’’بظاہر اِن حدیثوں میں تعارض ہے کہ ایک جگہ مریض سے بچنے کا حکم ہے اور دوسرا جذام کے مریض کے ساتھ کھانا کھانے کے حوالے سے آپ کا فعلِ مبارک ہے، اس سے کوئی مرض کے متعدی نہ ہونے کا نتیجہ نکال سکتا ہے، اِن حدیثوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ امراض میں متعدی ہونے کی تاثیر اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے، لیکن وہ اللہ کی مشیت سے مؤثر ہوتی ہے، کسی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو دوا استعمال کرنے والا اور طبیب سے رجوع کرنے والا ہر مریض شفایاب ہوجاتا، لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، پس جس کے لیے اللہ کا حکم ہوتا ہے، اْس کے حق میں ڈاکٹر کی تشخیص درست اور دوا وسیلۂ شفا بن جاتی ہے۔"
0 Comments