Header Ads Widget

header ads

Budget 2020 “First of all, you don't have to panic”.بجٹ 2020 "سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے"۔

 Budget 2020 “First of all, you don't have to panic”,,
بجٹ 2020 "سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے"۔

34 کھرب سے زائد خسارے کا بجٹ

تحریک انصاف کے دورِ حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے جو 34 کھرب 37 ارب خسارے کا بجٹ ہے۔ وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ تجاویز پیش کیں جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں  اضافہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جو گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں رکھی گئی رقم میں ایک اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہے۔ پاکستان میں یہ عام رواج ہے کہ حکومتیں اپنی غلطیوں یا خامیوں کو چھپانے کے لیے ماضی کی حکومتوں پر ملبہ ڈال دیا کرتی ہیں، مگر اس بار حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ کورونا کا آسرا بھی تھا۔

گذشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال دفاعی بجٹ میں 11 اعشاریہ آٹھ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، تاہم گذشتہ برس پیش کیے جانے والے ترمیمی بجٹ میں یہ 61 ارب کا اضافہ ہے۔ بجٹ کی تقریر کے دوران حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے بینرز لہرائے گئے جن پر حکومت مخالف نعرے درج تھے جبکہ اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی بھی کی گئی۔

ملک میں ترقیاتی مقاصد کے لیے مختص پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

 

اس بجٹ کا کل تخمینہ 65 کھرب 73 ارب روپے ہے جس میں سے ایف بی آر ریوینیو 49 کھرب 63 ارب روپے ہے جبکہ غیر ٹیکس شدہ ریوینیو 16 کھرب 10 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کردی گئی ہے جو ایک بڑا فیصلہ ہے۔ ایک بڑی عجیب صورتحال کا سامنا تھا کہ جن چیزوں پر کسٹم ڈیوٹی نہیں تھی ان پر اضافی کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی تھی، لیکن اب حکومت نے اس اضافی کسٹم ڈیوٹی کو ختم کردیا ہے جس کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ صنعتی شعبہ فروغ پائے گا۔
50 ہزار کے بجائے ایک لاکھ کی خریداری پر قومی شناختی کارڈ کی شرط کا اعلان ایک مثبت قدم ہے۔ یہاں یہ مثبت پہلو اس لحاظ سے ہے کہ تاجر حضرات غیر رجسٹرڈ شدہ افراد کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں کرتے ہیں، اب جب کسی کا شناختی کارڈ لیتے ہیں تو اس طرح آپ کے سامنے غیر رجسٹر شدہ افراد کی ایک فہرست بن جاتی ہے۔
اس بجٹ میں پینشن اور تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے، اگر تنخواہوں میں اضافہ نہ بھی ہوتا تو بھی کم از کم پینشن میں اضافہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے پاس آمدن کا دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا۔
ٹرن اوور پر ریلیف صرف ہوٹل صنعت کو دیا ہے

بجٹ تقریر میں اعلان کیا گیا ہے کہ بھاری فیس لینے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس حوالے سے تفصیلات
ابھی آنا باقی ہیں لیکن اگر ٹیکنالوجی و پروفیشنل تربیت فراہم کرنے والے اداروں پر اس کا اطلاق ہوگا تو اس سے نقصان ہی پہنچے گا۔ دوسری طرف اگر دیگر بھاری فیسیں وصول کرنے والے پرائمری یا سیکنڈری سطح کے تعلیمی اداروں کو ٹیکس لگایا بھی جاتا ہے تو یہ ادارے ٹیکس کی رقم کو فیسوں میں ہی جوڑ دیں گے جس کے باعث والدین پر فیسوں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔

 



اس بجٹ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس غریب عوام کی فالاح کے لیے یہ ساری محفل براجمان  ہوتی ہے اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا۔ ہر بندہ ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہا ہوتا ہے کہ بھائی کوئی تو بتاؤ کہ آخر ہوا کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ واضح کی گیا کہ کورونا وائرس نے کس بُری طرح معیشت کو متاثر کیا ہے، مطلب کہ اگر پاکستان کو اس بیماری کا سامنا نہ ہوتا تو سب اچھا تھا، سب شاندار تھا، سب بے مثال تھا۔ اور بجٹ غریب عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام ہوتا۔

Post a Comment

0 Comments