An Indian girl chanting "Long live Pakistan" was released on bail.
پاکستان
زندہ باد کا نعرہ لگانے والی بھارتی لڑکی ضمانت پر رہا۔
اسٹیج
پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ سن کر سب
حیران رہ گئے تھے۔ ریلی کے مقبول مقرر اویسی نماز ادا کرنے کے لیے سٹیج سے باہر جا
رہے تھے لیکن جیسے ہی امولیا نے نعرہ لگایا وہ فوراً سٹیج پر واپس گئے اور انہیں
یہ کہتے سنا گیا کہ وہ اس طرح کی چیزیں نہیں بول سکتیں۔ دوسرے منتظمین نے مائیک کو
امولیا سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نعرے لگاتی رہیں۔ جلد ہی انہیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور دوسروں کے ساتھ ان پر بھی ملک کے خلاف بغاوت کا
الزام عائد کر دیا گیا تھا۔
جس بنا پر امولیہ لیونا نورونہا کی ضمانت منظور کی لی گئی۔ بنگلورو کے کالج کی میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ، امولیا نیونا نورونہا نے نعرہ لگاتے ہوئے، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی سمیت سب کو حیران کر دیا تھا۔ انھوں نے 'ہندوستان زندہ باد کا نعرہ' بھی لگایا تھا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ان کے وکیل پرسانا آر نے بتایا کہ رسمی کارروائی کل مکمل ہو گئی تھی جس کے بعد مجسٹریٹ آج ان کی رہائی کے آرڈر جاری کرنے والے ہیں۔ یہ آسان سا حکم نامہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں دوبارہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ کرناٹک میں ہونے والی سی اے اے مخالف ریلیوں میں احتجاج کے لیے آنے والے نوجوانوں میں امولیا نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی کیوں کہ وہ کناڈا زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی اچھی طرح سے تقریریں کر سکتی تھیں۔
ان کی تقاریر کے جذباتی انداز کے باعث سب انہیں پسند
کرتے تھے، 20 فروری کو جب انہیں فریڈم پارک کے جلسے میں تقریر کرنے کے لیے بلایا
گیا تو امولیا نے فوراََ ہی پاکستان زندہ باد کا نعرہ
لگا کر تقریر کی شروعات کی اور اس کے فوراً بعد 'ہندوستان کا نعرہ بھی لگایا
اور پھر ایسے ہی دوسرے ممالک کے نام لینے شروع کیے جو انھوں نے اپے فیس بک پر بھی پوسٹ کیے ہیں۔
16 فروری کی پوسٹ میں لکھا تھا۔
"ہندوستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد، بنگلہ
دیش زندہ باد، سری لنکا زندہ باد، نیپال زندہ باد، افغانستان زندہ باد، چین زندہ
باد، بھوٹان زندہ باد، جتنے بھی ملک ہیں سب زندہ باد۔ آپ بچوں کو سکھاتے ہیں کہ
قوم کا مطلب ہے وہاں کی سرزمین۔ لیکن ہم بچے آپ کو بتا رہے ہیں کہ قوم کا مطلب
وہاں رہنے والے لوگ ہیں۔ تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات ملنی چاہییں۔ سب کو اپنے
بنیادی حقوق سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملنا چاہیے۔ حکومتوں کو اپنے شہریوں کا خیال
رکھنا چاہیے۔ ہر وہ ملک زندہ باد جو اپنے شہریوں کی ضروریات کا خیال کر رہا ہے۔ میں
صرف زندہ باد کا نعرہ لگا کر کسی دوسری قوم کا حصہ نہیں بن گئی۔ قانون کے مطابق،
میں ایک انڈین شہری ہوں۔ میرا فرض ہے کہ میں اپنی قوم کا احترام کروں اور ملک کے
عوام کے لیے کام کروں۔ میں وہ کروں گی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس (ہندو
تنظیم ) والے کیا کریں گے۔"
امولیا کو 20 مئی کو رہا
ہونا چاہیے تھا جو ان کی گرفتاری کے بعد ٹھیک 90 دن بنتے ہیں۔ لیکن کووڈ 19 کے
باعث اس میں تاخیر ہوئی اور در حقیقت ان کی ضمانت کے لیے مجسٹریٹ کورٹ کا آرڈر اسی
دن موصول ہوا جس دن سیشن عدالت نے ان کی ضمانت مسترد کردی تھی۔ سیشن کورٹ نے اپنے
حکم میں کہا تھا: ’اگر درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے تو وہ مفرور
ہوسکتی ہیں یا پھر وہ اسی طرح کے جرم میں دوبارہ ملوث ہوسکتی ہیں جس سے بڑے پیمانے
پر ملک کے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن نے ان کے وکیلوں کو ہائیکورٹ سے
انصاف مانگنے پر مجبور کردیا کیونکہ سیشن عدالت نے ان کے مقدمے کی سنوائی کو اہم
نہیں سمجھا۔
بعدازاں سیشن عدالت میں
واپس جانے کے اندیشے کے سبب ان کے وکلا نے ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست واپس
لینے کا فیصلہ کیا۔
پرسانا بتاتے ہیں 'لہذا ہم نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی۔ اس دوران چونکہ 90 دن ختم ہوچکے تھے اس لیے ہمارے پاس سیکشن 167 (2) سی آر پی سی کے تحت مجسٹریٹ عدالت واپس جانے کا آپشن موجود تھا۔ ہم نے 26 مئی کو آن لائن پٹیشن منتقل کی۔ لیکن ان ای میلز پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی ہم نے 29 مئی کو مقدمہ مجسٹریٹ کورٹ میں منتقل کر دیا۔ ان کا کہنا تھا' 90 دن کی مدت ختم ہونے کے بعد کا ہر دن غیر قانونی حراست ہے۔ 2014 میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس دن دفعہ 167 (2) کے تحت درخواست دائر کی جائے گی اسی دن اس کی سماعت ہونی چاہیے اور اسے نمٹا دیا جانا چاہیے۔ پولیس نے 3 جون کو چارج شیٹ داخل کی۔ اس کے بعد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے ضمانت کا حکم جاری کیا۔
یاد رہے انڈیا میں اس نئے
قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے انڈیا آنے والے غیر مسلم تارکین
وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
0 Comments