Header Ads Widget

header ads

کیا ڈرامہ ارطغرل غازی دیکھنا گناہ ہے؟ جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتوی۔

کیا ڈرامہ ارطغرل غازی دیکھنا گناہ ہے؟ جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتوی۔

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے ترکی کے ڈرامے اردو ترجمے اور ڈبنگ کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں  ان ڈراموں میں ڈرامہ ار طغرل غازی  کے نے جو شہرت و مقبولیت  حاصل کی ہے  اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن TRT کی جانب سے بنایا گیا  ڈرامہ سیریل  ار طغرل غازی جسے پاکستان کے سرکاری  ٹی وی  پر پیش کیا جا رہا ہے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے   نہ صرف پی ٹی وی  کو اپنے پاوں پر کھڑا کردیا ہے بلکہ پی ٹی وی  اور ٹی آر ٹی  کے درمیان مستقبل میں مشترکہ پروڈکشن کی بھی راہ ہموار کردی ہے۔

ارطغرل کا تعارف؟

یہ ڈرامہ دراصل 13ویں صدی میں عثمانی ریاست کے بانی عثمان کے والد ارطغرل کی کہانی پر مشتمل ہے، جس کی فتوحات عثمانی سلطنت کے قیام  کا باعث بنیں۔ ڈرامہ ارطغرل غازی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب اسی تاریخ کا دوسرا حصہ بھی ریلیز کیا جا چکا ہے، جس میں عثمان کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ترکی  کے ڈرامے پاکستان میں پہلے ہی کافی مقبول ہیں۔ عشق ممنوع، اور میرا سلطان جیسے ڈرامے جنہیں اردو زبان میں ڈب کیا گیا تھا، بہت مقبول ہوئے تھے۔ ترک ڈرامہ ارطغرل غازی اس وقت پاکستان میں انتہائی مقبول ترین ڈرامہ ہے اور نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد ڈرامے کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد تھے۔ صدیوں تک دنیا کے بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا۔ اس سلطنت کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی تھی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس سلطنت کے حکمران رہے۔ ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔

 مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب عثمان کا خواب سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ "عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی"۔

ارطغرل ڈرامہ بنانے کی وجوہات:

ارطغرل غازی  ڈرامہ صرف ایک ڈرامہ نہیں بلکہ یہ ترکوں کی جانب سے اپنے ماضی کی فتوحات کو ٹی وی پر دکھا کر اپنا امیج اچھا کرنے کا ذریعہ بھی نظر آتا ہے۔ اسی لیے ترک صدر نے ڈرامے کے سیٹ پر جا کر اداکاروں سے خود ملاقات کی۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس ڈرامے کو پاکستان لانے کا فیصلہ بھی ترکی اور ملائشیا کے سربراہان مملکت سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔ اسی ڈرامے میں انہوں نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اسلام و فوبیا کے خاتمے کے لیے ایک ٹی وی چینل بنانے کا بھی اعلان کیا تھا۔

علاقائی سیاست میں ترکی، ایران اور سعودی عرب کا بہت اہم کردار ہے۔ اسی لیے ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب نے بھی گذشتہ سال ایک نئے ڈرامے کا آغاز کیا تھا جس کا نام "مملکت النار" ہے۔

فلموں اور ڈراموں کی بین الاقوامی ڈیٹا بیس “IMDB” کے مطابق اس ڈرامے کا کل بجٹ 40 ملین ڈالرز تقریباً چھ ارب روپے کے قریب ہے جس سے اس ڈرامے کی اہمیت کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔ اس ڈرامے میں اسلامی تعلیمات کے علاوہ جہاں جنگیں اور معرکے ہیں، وہیں رومانوی پہلو بھی ہے۔ ارطغرل کا اپنی اہلیہ حلیمہ سلطان کے لیے پیار اس ڈرامے کا ایک اہم ستون ہے۔

پاکستان میں لوگوں کو تُرکی ڈرامہ بہت پسند ہے جو یقیناً انڈین ڈرامے سے بہت بہتر ہے۔

 

جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتوی۔

 جامعہ دارالعلوم کراچی نے ڈرامہ "ارطغرل غازی" کو مسلمانوں کیلئے نامناسب ڈرامہ قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس طرح کی فلمیں بنانا دکھانا اور دیکھنا گناہ ہے۔ اس فتوے میں "ڈرامہ ارطغرل" غازی سمیت اس طرح کے دیگر ڈراموں کو اسلام کے خلاف ایک  سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس ڈرامے کے متعلق جامعہ دارالعلوم کراچی کی جانب دیے گئے فتوے کی کاپی بھی جاری کی گئی

 اس فتوے کے مطابق اسلامی شخصیات اور اسلامی تاریخ کو یا ان کے کارناموں کو ڈراموں یا فلموں کے ذریعہ پیش کرنا خود ان ہستیوں کی شان کو مجروح کرنے کے مترادف ہے لہٰذا اس کو اسلامک ڈرامہ کہنا درست نہیں۔ اس فتوے میں مزید کہا گیا کہ ڈراموں میں اپنی طرف سے حلیہ، لباس اور گفتگو کو منسوب کیا جاتا ہے جو در حقیقت اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کے خلاف سازش کا ایک حصہ ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان کا یہ آئیڈیا تھا کہ تیرہویں صدی کے عظیم الشان مسلم دور کی عکاسی کرنے والے اس ڈرامے "ارطغرل غازی" کو پاکستانی نوجوان دیکھیں تا کہ اس سے اسلامی تاریخ اور اقدار کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ ہو۔ اسی ارادے سے انھوں نے قومی نشریاتی ادارے PTV کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اس ڈرامے کو اردو زبان میں پاکستان میں نشر کرنے کا انتظام کیا جائے۔


Post a Comment

0 Comments